ایک دن میری نصف بہترنے باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئی تو عجب منظر دیکھا۔ پورا چمچہ باریک چیونٹیّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ بیگم صاحبہ نے مجھے حاضرِ خدمت ہونے ہونے کا حُکم صادر کیا تو چیونٹیوں کا اجتماع دیکھتے ہی ایک جھرجھری میرے پورے بدن میں دوڑ گئ۔ فوراً ایک اینٹی انسیکٹ اسپرے کیا۔ اور اپنے تئیں سمجھا کہ نمرود کی فوج کا صفایا کر دیا۔
اسی دن شام کو دودھ کے ایک قطرے پہ پھر چینوٹیوں کے ایک لشکر کا حملہ ہوا۔ آئندہ ایک ہفتے میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئ لشکر غارت کیے۔ مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔ ہم جاں فشانی سے چیونٹیّوں سے نبرد آزما تھے مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔اب روزمرہ کے انسیکٹ کلر پر سے اعتماد اٹھ چلا تھا۔ ادھر یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔ کچھ عرصے چیونٹیوں کی لاتعدا قطاروں کو صاف کرنے کے بعدہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے گھر پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ گھر کے چاروں طرف بنیاد کے ستھ ساتھ چونا ڈالا گیا اور لان میں چیونٹیاں مار دوا ڈالی گئ۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔ اب گھر کے باہر چونا ڈالنے کے بجائے چیونٹی مار دوا ڈالی گئ۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ مگر کچھ دنوں بعد ہم پھر اپنی پرانی حالت پہ واپس آگئے۔ پھر مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ اینٹی انسیکٹ کا اتنا ستعمال ہمارے خود کے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں۔
دماغ پر زور ڈالا، غور کیا تو اِِس نتیجے پہ پہنچا کہ چیونٹیاں پڑوس میں نئے گھر بننے کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے جو جنگل صاف کیا تو یہ ہمارے گھر آدھمکیں۔ اب سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ یکدم خیال آیاآخر ہم انٹرنیٹ کیوں نہیں استعمال کرتے؟ دماغ کے جالے لگتا تھا کہ ایکدم صاف ہو گئے۔ اب دو دن نیٹ پرخوب سرچ ماری اور بلآخر ایک نتیجے پہ پہنچ گئے۔فوراً اُٹھے او بازار سے بورک ایسڈ لےکر آئے۔
اگلے دِن چینی کاشیرہ تیار کیا اور اس میں بورک ایسڈ کو ملادیا۔ پھر اسِ گاڑھے محلول کو چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چینٹیوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشان زدہ کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔ آہستہ آہستہ چیونٹیوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ توپوں کا رخ میری جانب تھا:
- چیونٹیاں آرہی ہیں چیونٹیاں جا رہی ہیں!
- لیجئے اب تو چیونٹیّوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے!
- اب دیکھیئے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں!
- اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے!
- وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چیونٹیوں کا راج ہو گا۔ اور ہاتھیوں کا آنا منع ہوگا!
- اس دفعہ آپ نے اینٹی انسیکٹ نہیں لیا !
- کیا چیونٹیّوں کا کوئی اور علاج ہو رہا ہے!
- چیونٹیاں نہ ہوئیں طالبان ہوگئیں!
- لگتا ہے کوئی چلـہ کاٹا جارہاہے!
میں نے سب کو یقین دلایا کہ میں کوئی روحانی عمل نہیں کر رہا ہوں۔ میں بورک ایسڈ بذریعہ شیرہ چیونٹیوں کو دے رہا ہوں، بورک ایسڈ ان کا معدہ ہضم نہیں کرتا اور معدہ پھٹ جانے کے نتیجے میں وہ اس دار فانی سے کوچ کرجائیں گی!
یقین دہانی کے نتیجے میں تابڑ توڑ سوالات:
- تو کیا اب ایک ایک چیونٹی کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا!
- اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کے انڈوں سے چیونٹیاں پیدا نہیں ہونگیں!
اللہ اللہ کر کےکچھ دنوں کی مہلت مل گئی۔ روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کیا جانے لگا۔ دو ہفتوں کے بعد چیونٹیوں میں واضع کمی ہوگئی۔ آج بورک ایسڈ مِلا شیرہ بنائے کو اس ایک سال ہوگیا ہے۔ اب ہمارے گھر میں کبھی کبھار کوئی چیونٹی اس لئے نظر آجاتی ہے کہ بچوں کو بتایا جا سکے
یہ ہوتی ہے چیونٹی جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں!