زکوۃ کے قرآنی مصارف

 

قرآن شریف میں زکوۃ کی آٹھ مدّات کا حکم ہے:

  1. فُقراء :زکوۃ فقیروں کے لیے جو تنگ دست ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی بڑی مشکل سے گزار رہے ہوں مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں
  2. مساکین :۔مساکین وہ ہیں جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ یہ بہت ہی تنگ دست لوگ ہیں جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے کمانے کے قابل ہوں مگر روزگار نہ ملتاہو
  3. عا ملین علیہا :۔یعنی زکوۃ کا مصرف زکوۃ وصول کرنے پر جو مامورہوں۔ اسلامی حکومت ان کو جو کچھ تنخواہ کی مد میں دے 
  4. ۔موئلفۃالقلوب :۔ زکوٰۃ اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہوںیعنی جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں یا جنکی اسلام دشمنی کو کم کرنے میں مدد کی ضرورت ہو 
  5. فی الّرقاب :۔اس سے مراد جو شخص غلام ہواسکو آ زاد کرانے میں یعنی غلاموں کی آزادی کے لیے زکوۃ کا استعمال جائز ہے۔آجکل جیل کے اندر قیدحقدار قیدیوں کی رہائی کے لیے زکوٰۃ استعمال کیا جا سکتی ہے
  6.   الغارمین :۔اس سے مراد جو لوگ قرضدار ہو ں مگر اپنا قرض ادا نہ کر سکتے ہوں ان کا قرض ادا کرنے کے لیے زکوۃ استعمال کی جا سکتی ہے
  7. فی سبیل اللہ:۔اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے یعنی جہاد کے لیے زکوۃ استعمال کی جا سکتی ہے کوئی شخص مال دار ہے مگر اللہ کے دین کو قائم کرنے میں لگا ہوا ہے اس کو بھی ز کو ۃ دی جا سکتی ہے
  8. ابنُ السّبیل:۔ اگر کوئی شخص مسافر ہے اور اسے پیسے کی ضرورت ہے اس کی زکوۃ میں سے مدد کی جاسکتی ہے چاہ وہ اپنے ملک میںما لدار ہی کیوں نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ کسی غنی یعنی مالدار کے لئے حلال نہیں بجز مندرجہ ذیل پانچ شخصوں کے :ایک وہ شخص جو جہاد کے لئے نکلا اور وہاں اس کے پاس بقدر ضرورت مال نہیں، دوسرے عامل صدقہ جو صدقہ وصول کرنے کی خدمت انجام دیتا ہو۔ تیسرے وہ مالدار ہو جسکے مال سے زیادہ اس پہ قرض ہو ۔چوتھا وہ شخص جو صدقہ کا مال کسی غریب مسکین سے پیسے دے کر خرید لے۔پانچواں وہ شخص جس کو کسی غریب فقیر نے صدقہ کا حاصل شدہ مال بطور ہدیہ تحفہ پیش کر دیا ہو ۔ان لوگوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کیلئے ان کی صدقات دئیے جاتے تھے عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں تین چار قسم کے لوگ شامل تھے جو مندرجہ ذیل ہیں:
غیر مسلم
2۔حاجت مند غریب نومسلم مسلمان تاکہ اسلام پر پختہ ہو جائیں۔
3۔بعض وہ مسلمان تھے جن کی قوم کو ان کے ذریعے ہدایت پر لانا مقصد تھا۔
4۔بعض وہ لوگ تھے جن کو حسن سلوک سے متاثر کرنا تھا۔
غیر مسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب اسلام و مادی قوت حاصل ہو گئی تھی اس لئے ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا تھا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ،حسن بصری ،ابوحنیفہ ،مالک بن انس کی طرف سے یہی منسوب ہے ۔
تفسیر مظہری میں واضح ہوا ہے کہ بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم کو عطیات دئیے ہیں اس لئے صحیح مسلم اور ترمذی میں جو مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو کافر ہونے کے زمانے میں کچھ عطیات دئیے تھے اس کے متعلق امام نووی نے تحریر کیا ہے کہ یہ زکوٰة کے مال سے نہیں تھے بلکہ غزوہ حنین کے مال غنیمت سے تھے ۔یہاں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المال میں بھی زکوٰة کاحساب کتاب علیحدہ تھا تاکہ اس کا مصرف بھی اس احکام کے مطابق ہو ۔
رقاب رقبہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ”گردن“۔اس لفظ کا استعمال اس شخص کے لئے کیا جاتا ہے جس کی گردن کسی دوسرے کی غلامی میں مقید ہو۔اس لئے رقم زکوٰة دے کر ان لوگوں کی مدد کی جائے ۔یہاں یہ دیکھنا ہو گا کہ کون سے غلام کی بات ہو رہی ہے ۔جمہور فقہااس پر ہیں کہ یہ وہ غلام ہیں جن پر ان کے آقا نے یہ شرط رکھی ہو کہ اتنا مال کما کر دیں گے تو آزاد کر دےئے جائیں گے ۔
ایسے غلام کی آزادی میں زکوٰةکا مال دے کر ان کی آزادی میں ان کی مدد کی جائے۔
غارم کے معنی قرضدار کے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ قرضدار کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ جس سے وہ قرض ادا کر سکے۔کیونکہ غارم لغت میں ایسے قرضدار کو کہا جاتا ہے ۔بعض فقہا نے یہ بھی کہا کہ قرضدار نے یہ قرض کسی ناجائز کام کیلئے نہ لیا ہو۔اگر کسی گناہ کیلئے قرض لیا ہو جیسے شراب وغیرہ کے لئے یا شادی غمی کی ناجائز رسومات کے لئے تو ایسے قر ضدادر کو زکوٰة کے مال میں سے نہ ادا کیا جائے ورنہ زکوٰة ادا نہ ہو گی۔
تفسیر کشاف میں ہے کہ اس اعاد ہ سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ مصرف پہلے سب مصارف سے افضل اور بہتر ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اسمیں دو فائدے ہیں ایک تو غریب مفلس کی امداد دوسرے ایک دینی خدمت میں اعانت ۔مندرجہ ذیل لوگ فی سبیل اللہ میں شامل ہیں :وہ غازی یا مجاہد شخص جس کے پاس اسلحہ اور جنگ کا ضروری سامان خریدنے کے لئے مال نہ ہو۔
وہ شخص جس کے ذمہ حج فرض ہو چکا ہو لیکن اس کے پاس مال نہیں رہا جس سے وہ حج ادا کر سکے۔
وہ طالب علم جن کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے مال نہ ہو۔وہ شخص جو نیک کام یا عبادت کرنا چاہتا ہو ،اس کی ادائیگی میں مال کی ضرورت ہو اور اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے اس کام کو پورا کیا جا سکتا ہے جیسے دین کی تعلیم ،تبلیغ اور نشرواشاعت تو اس کی امداد مال زکوٰة سے کی جاسکتی ہے۔