شطرنج اور چاول

چین کے ایک بادشاہ نے تمام ملک میں یہ منادی کروا دی کہ جو شخص اُسے شطرنج کے کھیل میں زیر کر دے گا وہ اُس کی کوئی بھی ایک خواہش پوری کر دے گا۔ماجد: بچپن میں سنا تو تھا شاید مگر پوری طرح سے یاد نہیں!
ماسٹر جی: اچھا تو پھرسنو! بادشاہ کے منادی کرانے پر بہت لوگ قسمت آزمائی کے لیے آئے مگر کوئی بھی بادشاہ کو شطرنج کے کھیل میں ہرا نہیں سکا۔ لیکن ایک دن ایک مفلوک الحال شخص آیا اور اُس نے بادشاہ کو باآسانی ہرا دیا۔ بادشاہ کو بڑی مایوسی ہوئی مگر وعدے کے مطابق اُس نے پوچھا کہ اپنی خواہش بیان کرو؟ اس شخص نے کہا کہ عالم پناہ!آپ تو جانتے ہیں کہ شطرنج کی بساط میں کل چونسٹھ (64) خانے ہوتے ہیں ۔ بادشاہ نے کہا ہمیں معلوم ہے۔ وہ شخص بولا چین میں دُنیا بھر سے زیادہ چاول پیدا ہوتا ہے اس لیے سستی شئے ہے۔ بس میری خواہش یہ ہے کہ آپ شطرنج کے پہلے خانے پر چاول کا ایک دانہ میرے لیے رکھ دیں۔ دوسرے خانے میں دگنے یعنی 2 دانے اور تیسرے میں اس کے دُگنے یعنی 4 اور چوتھے میں اس کے دُگنے یعنی 8 اور اس طرح ہر خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد کو دُگنا کرتے چلے جائیں یہاں تک کے بساط کے 64 خانےمکمل ہو جائیں۔ پھر آپ وہ تمام چاول میرے حوالے کردیں۔ بس یہی میری خواہش ہے! بادشاہ نے کہا بس اتنی سی بات! یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہم تمہاری خواہش ابھی پوری کیے دیتے ہیں۔ یوں بادشاہ نے اپنے وزیر کو چاول کی بوری اور شطرنج کی بساط لانے کو کہا اور اُس شخص کی مرضی کے مطابق چاول کے دانے بساط کے خانوں میں رکھنے کو کہا۔ شروع کے خانوں میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا مگر بیس خانوں کے بعد صورتحال انتہائی مشکل ہو گئی اور بالآخر بادشاہ کو سمجھ آگیا کے اُس داناشخص نے بادشاہ سے اتنا چاول مانگ لیا تھا جو چین کی پوری مملکت میں تو چھوڑو پوری دُنیا میں موجود نہ تھا!
ماجد: کیا بات کر رہے ہیں ماسڑجی آپ! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
ماسٹر جی: وہ اس طرح کے اگر تم پہلے خانے میں ایک پھر دوسرے میں دو اور اسی طرح 64 خانوں میں چاول کے دانوں کی تعداد دگنی کرتے جاؤ تو ضرب کے قانون کے حساب سے چونسٹھویں خانے میں کل چاول کے دانوں کی تعداد 9,223,372,036,854,780,000 (نو ّے سنکھ یا 9 quintillion)ہو جائے گی۔ اور مجموعی طور پہ بساط پر چاول کے دانوں کی تعداد 18,446,744,073,709,600,000 اور ان کا کُل وزن تقریباً تین کھرب اُنہتر اَرب میٹرک ٹن ( metric ton 368,934,881,474) بنے گا۔ جانتے ہو یہ کتنا ہوتا ہے؟
ماجد: پتہ نہیں۔۔۔۔۔ شاید بہت زیادہ!
ماسٹر جی: بہت!!؟ تم اس بات سے اندازہ لگا لو کے 2014 یعنی اس سال پوری دُنیا میں جو چاول کی فصل ہو گی اُس کا کل وزن پچھتر کروڑ ٹن ہو گا یعنی جتنا چاول اُس شخص نے مانگا تھا وہ اُس زمانے کی پیداوار کو چھوڑو آج کی پوری دنیا کی کل پیداوار سے بھی پانچ سو گنا زیادہ تھا!!! دوسرے لفظوں میں پوری دُنیا میں اس سال جو چاول کی کاشت ہو گی اُتنی پیداوار اگر پانچ سو سال تک مسلسل ہوتی رہے گی تو اُتنا چاول بنے کا جتنا اُس شخص نے مانگا تھا!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آم
آم ایک خاص پھل ہے۔ بلکہ اگر اسے جنت کا میوہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ آم واقعی پھل نہیں بلکہ یہ کاجوُ اور پستے کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک میوہ ہے ۔ لیکن چونکہ قدیم زمانے سے ہم سب اِسے پھل ہی کہتے آئے ہیں اس لیے ہم بھی یہاں اسے پھل ہی کہیں گے۔

آج کل ہمارے ملُک میں آموں کی بہار ہے۔ جدھر دیکھیے آم ہی آم اور وہ بھی گھٹلیوں کے دام! اگر پاکستانی آم کہیں مغرب کے کسی مُلک میں بکتا تو یقیاناً سونے کے بھاؤ بیچا جاتا۔ اس کی قدر یورو، پاونڈ اور ڈالر وغیرہ میں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے ملُک کا آم بیرون ملُک بھی بے تحاشہ ایکسپورٹ ہوتا ہے اور اس میں کئی لوگ اچھا پیسہ بھی بناتے ہیں مگر اپنی حد درجہ امتیازی حیثیت کے باوجود یہ پھر بھی نسبتاً سستہ ہی ہے۔

پاکستان کا آم بے نظیر ہے۔ گو آم کی کم و بیش ہزار مختلف اِقسام ہیں مگر پاکستان میں چاہے آپ چونسا لے لیں یا انور اٹول ، سندھڑی، سرولی، لنگڑا، دسہری، سرولی، الفانسو، نیلم، فجری، بنگن پلی، محمد دال یا دیگر کوئی نسل لے لیں سب کی سب ماشاء اللہ اپنے ذائقہ میں لاجوب ہیں۔ کہتے ہیں سونا آگ میں تپتا ہے ہے تو کُندن بنتا ہے۔ اسی طرح جب ہمارا آم ملتان اور اُس کے گرد و نواح میں مئی اور جون کی جھلساتی گرمی اور لوُ کے تھپیڑوں میں تپ کر پکتا ہے تو وہ مِٹھاس اور ذائقہ اپنے اندر لاتا ہے کہ جو دُنیا میں کہیں اور کسی اور پھل میں نہیں پایا جاتا۔ ماشاء اللہ!

آم پاکستان کی اُن گنی چنی چیزوں میں سے ہے کہ جس پر اللہ کا خاص فضل ہے۔ میں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کے میں نے جو بہترین آم اپنے بچپن میں کھایا تھا وہ آم الحمدوللہ پاکستان میں آج بھی دستیاب ہے۔ آم کی گٹھلی کا گودا بھون کر کھانے کا رواج اب شہروں کی حد تک تو ختم ہی ہو گیا ہے۔ گاؤں دیہات میں اس کا سالن اب بھی بنتا ہے۔ یہ گٹھلی کا گودا ہی دراصل اسے پستہ اور کاجوُ کے قبیلے سے جوڑتا ہے۔ آم کا اچار پورے برصغیر میں بہت مقبول اور مرغوب ہے ۔

آم کے بارے میں انسان چار ہزار سال سے جانتا ہے۔ اور اس کی شروعات بھی برصغیر میں ہمالیہ کے نچلے حصے سے ہوئی۔ گورے بھی آم کے رسیا ہیں مگر انھوں نے زیادہ تر ٹروپیکل اور لاطینی جنگلی آم کھایا ہے جس کے بارے میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ اُس آم کو آم کہنا آم کی توہین ہے۔

آم میں جہاں اللہ تعلیٰ نے ذائقہ، شیرینی، خوشبوُ اور خوشنمائی بخشی ہے وہیں اس میں بے تحاشہ طبی فوائد بھی رکھے ہیں۔ اب آپ ملا حضہ کریں کہ:

آم چاہے کچا ہو یا پکا اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ آم میں موجود اینٹی آکسیڈینٹس مختلف اقسام کے کینسر جیسے سینے کا کینسر، لوُکیمیا، پراسٹریٹ کینسر، سے بچاؤ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ اپنے ریشے، وٹامن C اور نشاستہ دار غذائیت کی بدولت خون میںLDL یعنی خراب کولیسٹرول کی سطح کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ جلد کی خوبصورتی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اِس کا ایک کپ کے برابر روزانہ استعمال انکھوں کے لیے وٹامن A کی روزانہ کی ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ آم کے پتے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ آم کھانے سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور یہ اِمیون سسٹم کو بہتر کرتا ہے۔ کچے آم کا شربت گرمی سے اور دل کے صدمے سے بچاتا ہے۔ چا سبز آم وٹامن سی کی وافر مقدار کے سبب خون کے امراض کا بھی کارگر علاج ہے۔ یہ خون کی نالیوں کی لچک میں اضافہ کرتا ہے اور خون کے نئے خلیے بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے استعمال سے غذائی فولاد (فوڈ آئرن) کا انجداب بڑھتا ہے جبکہ خون کا اخراج رکتا ہے۔ یہ تپ دق‘ انیمیا‘ ہیضہ اور پیچش کے خلاف بدن میں مزاحمت بڑھاتا ہے۔ وزن میں کمی کی صورت میں آم اور دودھ کا استعمال زبردست اور مثالی علاج ہے۔ آم کی چھال خناق اور گلے کی دیگر بیماریوں کے علاج میں کارآمد ہے۔ آم کا پھل توڑنے کے وقت شاخ سے جو رس نکلتا ہے اسے بچھو یا شہد کی مکھی کے ڈنک پر لگایا جائے تو فوراً درد دور ہوجاتا ہے۔ کچے آم کا چھلکا قابض اور مقوی ہوتا ہے۔

آم کے فوائداتنے زیادہ ہیں کے اِن پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن اب ہم ان پیڑوں کو گنّا چھوڑتے ہیں اور کچھ اچھے اور ٹھنڈے سے آم کھاتے ہیں اور جنت کے مزے لیتے ہیں۔